বিষয়: কোম্পানীর কাজে নিজ গাড়ি ব্যবহার প্রসঙ্গে
আপনার প্রশ্নের শরয়ী সমাধান:
শরয়ী দৃষ্টিতে যেকোন ক্ষেত্রে মিথ্যা ও ধোঁকার আশ্রয় নেয়া সম্পূর্ণ হারাম।
অতএব, প্রশ্নোক্ত সুরত অনুযায়ী চুক্তিবিহীন নিজ বাইকে সফর করে স্বাভাবীক গাড়িতে চলাচলের খরচ গ্রহণ বৈধ নয়।
উত্তম পদ্ধতি হলো: বাইক ব্যবহার, ড্রাইভ এবং তেল খরচ ইত্যাদির সমন্বয়ে ন্যায্য ভাড়া নির্ধারণ করত: মালিকপক্ষের সঙ্গে চুক্তি করে নেয়া।
দলীল:
সহীহুল বুখারী: ৩/১১১৯ হাদীস নং- ২৯০৯, আয যুহদু ওয়ার রাক্বায়িক্ব: ২২১, মাজমাউল আনহুর: ২২১, রদ্দুল মুহতার: ৫/৫১৮, বাদায়েউস সানায়ে: ৬/৩৪, আল ফাতাওয়া আল হিন্দিয়া: ৪/৪২৫, ইমদাদুল আহকাম: ৪/৪৭০, আপ কে মাসায়েল আওর উনকা হল: ৮/২৭৮
الأدلة الشرعية:
(1) صحيح البخاري: 3/1119 برقم:2909 (دار ابن كثير، دار اليمامة؛ الشاملة)
– عن عبد الله بن عمرو قال: كان على ثقل النبي صلى الله عليه وسلم رجل يقال له كركرة فَمَاتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم: (هو في النار). فذهبوا ينظرون إليه فوجدوا عباءة قد غلها.
(2) الزهد والرقائق: 221؛ باب في طلب الحلال والحرام؛ للعلامة عبدالله ابن المبارك رح ( دار الكتب العلمية؛ الشاملة )
– عَنْ مُوسَى بْنِ سُلَيْمَانَ أَنَّهُ سَمِعَ الْقَاسِمَ بْنَ الْمُخَيْمِرَةِ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَصَابَ مَالًا مِنْ مَأْثَمٍ فَوَصَلَ بِهِ رَحِمًا، أَوْ تَصَدَّقَ بِهِ، أَوْ أَنْفَقَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، جُمِعَ ذَلِكَ جَمِيعًا، ثُمَّ قُذِفَ بِهِ فِي جَهَنَّمَ»
(3) مجمع الأنهر: 221؛ ( دار احياء التراث العربي، بيروت )
- وَالْكَذِبُ حَرَامٌ إلَّا فِي الْحَرْبِ لِلْخُدْعَةِ وَفِي الصُّلْحِ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَفِي إرْضَاءِ الْأَهْلِ وَفِي دَفْعِ الظَّالِمِ عَنْ الظُّلْمِ) لِأَنَّا أُمِرْنَا بِهَذَا فَلَا يُبَالِي فِيهِ الْكَذِبَ إذَا كَانَتْ نِيَّتُهُ خَالِصَةً.
(4) بدائع الصنائع: 6/34؛ ( دار الكتب العلمية، سعيد )
– أن المقبوض في يد الوكيل بجهة التوكيل بالبيع والشراء وقبض الدين والعين وقضاء الدين – أمانة بمنزلة الوديعة، لأن يده يد نيابة عن الموكل بمنزلة يد المودع.
(5) الفتاوى الهندية: 4/425؛ ( دار الفكر بيروت، زكريا )
– ولو زاد في الدار زيادة كما لو وتد فيها وتدا أو حفر فيها بئرا أو طينا أو أصلح أبوابها أو شيئا من حوائطها طابت له الزيادة.
(6) امداد الاحكام: 4/480؛ ( دار العلوم كراچی )
ہمیں ملازمین سے تحقیق کرنے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ رقم گورنمنٹ یا محکمہ کورٹ کی طرف سے ملازمین کی ملک کر دی جاتی ہے اس لئے باوجود اس علم کے کہ فلاں شخص سیکنڈ یا انٹر میں سفر نہیں کرتا اس پر کوئی جرم قائم نہیں ہوتا نہ اس علم کے بعد گورنمنٹ اس کو سیکنڈ وانٹ کے کرایہ سے محروم کر دیتی ہے بلکہ بدستور اسی قاعدہ سے کرایہ دیتی ہے اگر یہ تحقیق صحیح ہے تو سائل کو تھرڈ درجہ میں سفر کرنا اور بقیہ رقم کو اپنی ذاتی مصارف میں صرف کرنا جائز ہے اس پر کفایت شعاری کر کے اس رقم کو بچانا واجب نہیں بلکہ یہ بھی جائز ہے کہ جس درجہ کا کرایہ دیا جائے اسی درجہ میں سفر کرے۔
(7) آپ کے مسائل اور ان کا حل: 8/؛278 ( امداديہ )
سوال۔ زید جس کمپنی میں ملازم ہے اس کمپنی کی طرف سے دوسرے شہروں میں مال کی فروخت اور رقم کی وصولی کے لئے جانا پڑتا ہے جس کا پورا خرچہ کمپنی کے ذمہ ہوتا ہے بعض شہروں میں زید کے ذاتی دوست ہیں جن کے پاس ٹھہرنے کی وجہ سے خرچہ نہیں ہوتا۔ کیا زید دوسرے شہروں کے تناسب سے ان شہروں کا خرچہ بھی اپنی کمپنی سے وصول کر سکتا ہے یا نہیں؟ جواب ۔ اگر کمپنی کی طرف سے یہ طے شدہ ہے کہ ملازم کو اتنا سفر خ خرچ دیا جائے خواہ وہ کم خرچ کرے یا زیادہ ، اور کرے یا نہ کرے ، اس صورت میں تو زید اپنے دوست کے پاس ٹھہرنے کے باوجود کمپنی سے سفر خرچ وصول کر سکتا ہے اور اگر کمپنی کی طرف سے طے شدہ نہیں بلکہ جس قدر خرچ ہو ملازم اس کی تفصیلات جزئیات لکھ کر کمپنی کو دیتا ہے اور کمپنی سے بس اتنی ہی رقم وصول کر لیتا ہے جتنی اس نے دوران سفر خرچ کی تھی تو اس صورت میں کمپنی سے اتناہی سفر خرچ وصول کر سکتا ہے جتنا کہ اس کا خرچ ہوا۔
Leave Your Comments